|
|
DOWNLOAD FONT
فانٹ داءون لوڈ کریں |
ہیں کواکب کچھ ،نظر آتےہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
|
DOWNLOAD FONT
فانٹ داءون لوڈ کریں |
رہبر کے روپ میں راہزن |
|
زید زمان المعروف زید حامد |
|
یعنی: زید زمان المعروف زید حامد کا تعارف اور ان جیسےدوسرے ملحدین کا طریقہ واردات اور ان کے دجل وفریب سے بچنے اور محفوظ رہنے کی تدابیر |
|
از
حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری
|
|
|
ناشر
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،پاکستان
|
|
www.khatm-e-nubuwwat.com |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم |
|
الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
گزشتہ سال اکتوبر نومبر ۸۰۰۲ءمیں راقم الحروف نے قربِ قیامت کے فتنوں اور فتنہ پروروں کی نشاندہی کرتے ہوئے حدیث کی مشہور کتاب کنزالعمال کی ایک روایت کے حوالے سے انسان نما شیطانوں کے اضلال و گمراہی کی نشاندہی کی اور ضمناً ٹی وی کے ”نامور تجزیہ نگار“ زید حامد کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ کل کا زید زمان آج کا زید حامد ہے، اور یہ بدنام زمانہ اور مدعی نبوت یوسف کذاب کا خلیفہ اول ہے، جو یوسف کذاب کے واصل جہنم ہونے کے بعد ایک عرصہ تک منقار زیر پَر اور خاموش رہا، جب لوگ، ملعون یوسف کذاب اور اس کے ایمان کُش فتنہ کو قریب قریب بھول گئے تو اس نے زید حامد کے نام سے اپنے آپ کو منوانے اور متعارف کرانے کے لئے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل سے معاملہ کرکے اپنی زبان و بیان کے جوہر دکھلانا شروع کردیئے اور بہت جلد مسلمانوں میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا، ...یہ بات بھی غلط ہے کہ براس ٹیکس نجی ٹی وی چینل کا پروگرام ہے، یہ پروگرام زید زمان کی اپنی کمپنی براس ٹیکس کا تیار کردہ ہے کیونکہ اسلام آباد میں مقیم ہمارے ایک باخبر دوست کے مطابق ایک اہم ادارے کا اسپانسر پروگرام ہے، ظاہر ہے کہ اس طرح کے پروگرام کی تیاری اور آن ایئر جانے پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے، (ڈاکٹر فیاض عالم، روزنامہ جسارت کراچی) بہرحال یہ سب کچھ اس کی چرب لسانی،تُک بندی اور جھوٹی سچی معلومات کا کرشمہ ہے، ورنہ زید حامد کے پس منظر میں جھانک کر دیکھا جائے تو یہ ملعون یوسف کذاب کے عقائد و نظریات کا علمبردار اور اس کی فکر و سوچ کا داعی و مناد ہے ...اور ایسا کیوں نہ ہو کہ چشم بددور یہ اکا صحابی، خلیفہ، اس کا معتمد خاص، اس کا سفر و حضر کا ساتھی، مشکل وقت میں اس کا معاون و مددگار ،اس کے مقدمہ اور کیس کی پیروی کرنے والا اور طرف دار رہا ہے۔
راقم کی یہ تحریر جب ماہنامہ بینات کراچی اور ہفت روزہ ختم نبوت میں شائع ہوئی تو ہمارے بہت سے محترم و معزز احباب و رفقاءاور دین و مذہب سے وابستگی رکھنے والے مخلصین نے فون پر رابطہ کرکے میری فہمائش کرنا چاہی کہ: زید حامد تو بہت اچھا آدمی ہے بلکہ وہ اس دور میں مسلمانوں کا واحد ترجمان اور نمائندہ ہے کیونکہ جس طرح یہ یہودیوں اور امریکا کے خلاف اور جہاد افغانستان کے حق میں بولتا ہے، دوسرا کوئی اس کی ہمت و جرا ¿ت نہیں کرسکتا، بلکہ جس بے باکی اور بے خوفی سے یہ شخص بولتا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ خالص ”طالبان“ ہے۔
اس کے علاوہ آج جب کوئی شخص اپنے اندر مسلمانوں، جہاد اور اسلام کے حق میں لکھنے اور بولنے کی ہمت و جرا ¿ت نہیں پاتا، بلکہ جب سب لکھنے اور بولنے والوں کی زبان و قلم کا رخ اسلام، اسلامی شعائر، جہاد، مجاہدین اور طالبان کے خلاف ہے، بلاشبہ اس جیسے مردِ مجاہد کی زبان و بیان سے اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی، لق و دق صحرا میں کسی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے یا شجرسایہ دار کے مترادف ہے؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہے تو اس مردِ مجاہد کی مخالفت کیوں؟
یوں تواس سلسلہ میں بہت سے حضرات نے نہایت اخلاص سے مجھے سمجھانے کی سعی و کوشش کی، مگر ہمارے بہت عزیز اور باقاعدہ سندیافتہ عالم دین مولانا محمد یوسف اسکندر سلمہ نے اس موقع پر خاصی جذباتیت کا مظاہرہ فرمایا، چنانچہ فرمانے لگے کہ:
”آپ حضرات بلا تحقیق کسی کو کافر و ملحد لکھنے اور باور کرانے میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتے، مولانا! ایک ایسا شخص جو آپ کا، اسلام کا، مسلمانوں کا، جہاد کا، مجاہدین کا اور طالبان کا ترجمان ہے اور اس کی آواز دنیا بھر میں سنی جاتی ہے اور دنیا اس کے علم و فہم اور مبنی برصداقت تجزیوں اور یہود و امریکا کے خلاف بے لاگ تبصروں پر خراج اور تحسین کے ڈونگرے برساتی ہے، آپ نے بیک جنبش قلم اس کو مخالفین کے کیمپ اور پلڑے میں ڈال کر کوئی اچھا کام نہیں کیا۔
مولانا! آپ خود ہی اس کا فیصلہ فرمائیں کہ جو شخص اسلام دشمن ہوگا، وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کیوں کر بولے گا؟ اور جو امریکا اور یہودیوں کا ایجنٹ ہوگا وہ یہودیوں اور امریکا کے خلاف سرِ عام لب کشائی کیوں کرے گا؟ میں نے غور سے ان کی تقریر سنی اور عرض کیا: عزیز من! کسی آدمی کا اچھا مقرر ہونا، عمدہ تجزیہ نگار ہونا، وسیع معلومات سے متصف ہونا، کسی کی چرب زبانی اور طلاقت لسانی ،اس کے ایمان دار ہونے کی علامت اور نشانی نہیں ہے، کیونکہ بہت سے باطل پرست ایسے گزرے ہیں، جو ان کمالات سے متصف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ مسلمان نہیں تھے بلکہ وہ اپنے ان کمالات و اوصاف کو اپنے کفر، الحاد اور باطل نظریات کی اشاعت و تبلیغ اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف ایک صدی پیشتر متحدہ ہندوستان کے غلیظ فتنہ، فتنہ قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی ابتدائی زندگی کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ شروع شروع میں اس نے بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ اسلام کا ترجمان اور آریوں اور عیسائیوں کے خلاف مناظر باور کرایا تھا، مگر یہ سب کچھ ایک خاص وقت اور ایک خاص مقصد کے لئے تھا ...وہ یہ کہ کسی طرح مسلمانوں میں اس کا نام اور مقام پیدا ہوجائے، اور بحیثیت مسلمان، اس کا تعارف ہوجائے، مسلمان اس کے قریب آجائیں اور مسلمانوں کا اس پر اعتماد بیٹھ جائے، چنانچہ جب اس نے محسوس کیا کہ ان مناظروں اور مباحثوں سے اس کے مقاصد حاصل ہوگئے ہیں، تو اس نے اپنے باطل افکار و نظریات کا اظہار کرکے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کردیئے، اس کے بعد اس نے جو گل کھلائے، وہ کسی باخبر انسان اور ادنیٰ مسلمان سے مخفی اور پوشیدہ نہیں۔
ٹھیک اسی طرح زید حامد بھی ایک خاص حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ کررہا ہے، لہٰذا جس دن اس کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس کا مقصد پورا ہوگیا ہے، یا مسلمانوں میں اس کا اعتماد، مقام اور تعارف ہوگیا ہے، یہ بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اپنے پوشیدہ افکار و عقائد کا اظہار و اعلان کردے گا۔
میرے خیال میں میری اس تقریر سے عزیز مولوی محمد یوسف سلمہ کا ذہن تو صاف نہیں ہوا، البتہ اس نے میری سفید داڑھی اور عمر کے فرق کا لحاظ کرتے ہوئے وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی۔
تاہم اس نے میرے مضمون میں دیئے گئے موصوف کے ویب سائٹ کے پتہ پر زید حامد سے رابطہ کیا، تو آگے سے اس نے بھی ٹھیک وہی تقریر جھاڑی کہ یہ میرے خلاف خواہ مخواہ کا غلط پروپیگنڈا ہے، اور مولوی مجھ سے خواہ مخواہ بغض رکھتے ہیں یا مجھ سے پرخاش رکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، ورنہ میرا کسی یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا۔
بہرحال ویب سائٹ پر ان کی بات چیت اور چیٹنگ جاری تھی کہ میرے رفیق کار مولانا محمد اعجاز صاحب نے انہیں ”یوسف کذاب“ نامی کتاب پیش کردی، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے عزیز مولوی محمد یوسف اسکندر کو جنہوں نے نہایت غورو خوض سے اس کا مطالعہ کیا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور ان پر حقیقت حال منکشف ہوگئی۔
چنانچہ انہوں نے حکمت و دانش مندی اور سلیقہ سے زید حامد کے ساتھ براہ راست سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ: اگر تمہارا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اس کتاب میں اور یوسف کذاب کے مقدمہ میں تمہارا نام کیوں ہے؟ اور تم نے اس کے مقدمہ کی پیروی کیوں کی تھی؟ اور تم نے اس مقدمہ کے فیصلہ کے بعد روزنامہ ڈان کراچی میں اس فیصلہ کو انصاف کے قتل سے کیوں تعبیر کیا ؟ اور مدعی نبوت یوسف کذاب کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اور اسکالر کے طور پر کیوں پیش کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
الغرض مسلسل سوالوں کے بعد اس نے بہرحال اتنا اعتراف کرلیا کہ جی ہاں میرا اس مقدمہ میں کسی حد تک کردار رہا ہے۔ چنانچہ اس کے اس اعتراف کے بعد مولوی محمد یوسف اسکندر صاحب کو زید حامد کی حقیقت سمجھ میں آگئی۔
خیر یہ تو ایک سمجھ دار عالم دین کا معاملہ تھا، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دین دار حضرات کو میری اس تحریر پر اعتراض تھا اور ہے، چنانچہ بہت سے مخلصین نے یہ کہہ کر اس بحث کو ختم کردیا کہ سعید احمد جلال پوری کو یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا پھر اس کو صحیح معلومات نہیں دی گئیں۔
اسی طرح جناب حافظ توفیق حسین شاہ صاحب نے روزنامہ جنگ کراچی میں حامد میر کے جواب میں راقم الحروف کے مضمون کی اشاعت پر اپنے میسیج میںلکھا:
”حضرت مدنیؒ سے متعلق بہترین جوابات بھی انہماک سے پڑھے ہیں، میں خاکسار آپ کی توجہ کے لئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ٹی وی ون کے ایک پروگرام میں ایک زبردست مجاہد صحافی زید حامد صاحب نے گستاخ حامد میر کو ”را“ کا ایجنٹ قرار دیا ہے،:
دیکھا آپ نے ان صاحب نے بھی زید حامد کو ”زبردست مجاہد صحافی“ لکھا، الغرض اس قسم کے دسیوں حضرات موصوف کے سحر میں گرفتار ہیں اور ان کی تقریر و بیان اور تنقید و تجزیوں کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کے سامنے زید حامد کی تصویر کا ایک رخ ہے اور اس کی زندگی کا دوسرا بھیانک رخ ان کے سامنے نہیں ہے، جس میں وہ مدعی نبوت یوسف علی کذاب کا خلیفہ اول، ناموس رسالت کا غدار اور فلسفہ ¿ اجرائے نبوت کا قائل، یوسف کذاب کی فاشسٹ زندگی، اس کی زنا کاری و بدکاری، کالے کرتوتوں کا حامی بلکہ اس کے وکیل صفائی کا کردار ادا کرتا رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ وہ قوم کی عزت مآب ماﺅں، بہنوں، بہوﺅں اور بیٹیوں کی عزت تار تار کرنے والے کو نعوذباللہ نبی و رسول باور کراتا رہا ہے۔
جب یہ بات طے ہے کہ کل کے زید زمان اور آج کے زید حامد نے یوسف علی کذاب کے عقائد و نظریات سے توبہ نہیں کی، بلکہ وہ آج بھی اس کے خلاف عدالتی فیصلہ کو انصاف کا خون کہتا ہے تو یقینا آج بھی وہ کذاب یوسف علی کی روش، اس کے مشن اور عقائد و نظریات کا حامی و داعی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ کل تک وہ کھل کر اس کا جانبدار اور وکیل صفائی تھا، مگر اب وہ حالات کا دھارا دیکھ کر وقتی اور عارضی طور پر اس کی وکالت و ترجمانی سے کنارہ کش، خاموش اور حالات کے سازگار ہونے کا منتظر ہے۔
اس لئے ضروری ہوا کہ اس مارِ آستین کی زہرناکی اور فتنہ سامانی سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اس کے خطرناک عزائم و ارادوں سے بھولی بھالی انسانیت کو آشنا کیا جائے، لہٰذا طے ہوا کہ زید حامد اور یوسف کذاب کے پرانے تعلق داروں سے رابطہ کرکے صحیح صورت حال معلوم کرکے اصل حقائق مسلمانوں تک پہنچائے جائیں، لہٰذا اس سلسلہ میں جب رابطہ مہم شروع کی گئی تو بحمداللہ! اچھا خاصا مواد اور اس حلقے کے کئی ایسے حضرات مل گئے جو زید حامد کو بچپن سے اب تک جانتے ہیں اور اس کی زندگی کے انقلابات اور قلا بازیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔
چنانچہ جب ان افراد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نہایت ہی خلوص و اخلاص سے نہ صرف سارے حقائق اور معلومات مہیا کیں بلکہ دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی میں تشریف لاکر اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ہم اس سلسلہ میں ہر جگہ جانے بلکہ زید حامد سے بات چیت کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم زید حامد کے بارہ میں وہ دلائل و براہین اور قرائن و شواہد پیش کریں ...جن سے ثابت کیا جائے کہ زید حامد مدعی نبوت یوسف کذاب کا ...نعوذباللہ... صحابی، خلیفہ اول، اس کے عقائد و نظریات کا علمبردار اور اس کی فکرو فلسفہ کا داعی و مناد ہے... ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنا وہ مضمون اور تحریر بھی یہاں نقل کردی جائے جو زید حامد کے فتنہ سے آگاہی کا سبب اور ذریعہ بنی اور یہ اس لئے بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات نے یہ تحریر نہیں پڑھی یا ابھی تک ان کی نگاہ سے نہیں گزری، ان کے دل و دماغ میں بڑی شدت سے یہ خیال آرہا ہوگا کہ آخر وہ کون سا مضمون اور تحریر ہے؟ جس کے ذریعہ اس نام نہاد ”مردِ مجاہد“ یا ”مسلمانوں، اسلام اور طالبان کے ترجمان“کے خفیہ پروگرام اور زیر زمین منصوبے کو چیلنج کیا گیا؟ یا اس کی ردائے باطنیت کو چاک کیا گیا ہے؟ لیجئے پہلے وہ تحریر پڑھئے:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ الٰہی سے اطلاع پاکر قیامت تک پیش آنے والے حالات و واقعات کی امت کو اطلاع دی ہے اورانہیں ممکنہ خطرات و اندیشوں سے آگاہ فرمادیا ہے۔ اسی طرح قرب قیامت میں جو جو فتنے ظہور پذیر ہوں گے یا جن جن طریقوں سے امت کو گمراہ کیا جاسکتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیشگی اطلاع دے کر امت کو ان سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ اہل علم اور علماءجانتے ہیں کہ احادیث کی تمام متداول و مُروّج کتب میں حضرات محدثین ؒنے ”ابواب الفتن“ یا ”کتاب الفتن“کا عنوان قائم کرکے ایسی تمام احادیث اور روایات کو یکجا کردیا ہے۔
یوں تو قرب قیامت میں بہت سے فتنے اٹھیں گے، مگر ان میں سب سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہوگا، جو انسانیت کو اپنی شعبدہ بازیوں سے گمراہ کرے گا۔
دجال اکبر تو ایک ہوگا، جس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر مقام ”لُدّ“ میں قتل کریں گے، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے دجال پیدا ہوں گے، جو امت کو گمراہ کرنے میں دجال اکبر کی نمائندگی کی خدمت انجام دیں گے۔
اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس بات کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ وہ ایسے ایمان کُش راہزنوں اور دجالوں سے ہوشیار رہے، کیونکہ قرب قیامت میں شیاطین انسانوں کی شکل میں آکر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ اس کامیابی سے اپنی تحریک کو اٹھائیں گے کہ کسی کو ان کے شیطان، دجال یا جھوٹے ہونے کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔
چنانچہ علامہ علا ¿ الدین علی متقی ؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کنزالعمال میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان انسان نما شیاطین کے دجل و اضلال ،فتنہ پرور سازشوں اوردجالی طریقہ کار کا تذکرہ کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے کہ:
”انظروا من تجالسون وعمن تا ¿خذون دینکم، فان الشیاطین یتصّورون فی آخر الزمان فی صور الرجال، فیقولون:حدثنا، واخبرنا۔ واذا جلستم الی رجل فاسئلوہ عن اسمہ و اسم ابیہ وعشیرتہ، فتفقدّونہ اذا غاب۔“
(تاریخ مستدرک حاکم، مسند فردوس دیلمی، کنزالعمال، ص:۴۱۲،ج:۰۱)
ترجمہ: ....”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ...تم لوگ یہ دیکھ لیا کرو کہ کن لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہو؟ اور کن لوگوں سے دین حاصل کررہے ہو؟ کیونکہ آخری زمانہ میں شیاطین انسانوں کی شکل اختیار کرکے ...انسانوں کو گمراہ کرنے ...آئیں گے... اور اپنی جھوٹی باتوں کو سچا باور کرانے کے لئے من گھڑت سندیں بیان کرکے محدثین کی طرز پر...کہیں گے: حدثنا واخبرنا...مجھے فلاں نے بیان کیا، مجھے فلاں نے خبر دی... وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا جب تم کسی آدمی کے پاس دین سیکھنے کے لئے بیٹھا کرو، تو اس سے اس کا، اس کے باپ کا اور اس کے قبیلہ کا نام پوچھ لیا کرو، اس لئے کہ جب وہ غائب ہوجائے گا تو تم اس کو تلاش کروگے۔“
قطع نظر اس روایت کی سند کے اس کا نفس مضمون صحیح ہے۔بہرحال اس روایت میں چند اہم باتوں کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے، مثلاً:
۱:.... مسلمانوں کو ہر ایرے غیرے اور مجہول انسان کے حلقہ درس میں نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ کسی سے علمی استفادہ کرنے سے قبل اس کی پوری تحقیق کرلینا ضروری ہے کہ یہ آدمی کون ہے؟کیسا ہے؟ کس خاندان اور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اور اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟
۲:.... اس کے اساتذہ کون سے ہیں؟ کس درس گاہ سے اس نے علم حاصل کیا ہے؟
۳:.... اس کا علم خودرو اور ذاتی مطالعہ کی پیداوار تو نہیں؟ کسی گمراہ، بے دین، ملحد اور مستشرق اساتذہ کا شاگرد تو نہیں؟
۴:.... اس شخص کے اعمال و اخلاق کیسے ہیں؟ اس کے ذاتی اور نجی معاملات کیسے ہیں؟ کہیں یہ شعبدہ باز اور دین کے نام پر دنیا کمانے والا تو نہیں؟
۵:.... اس کا سلسلہ سند کیا ہے؟ یہ جھوٹا اور مکار تو نہیں؟ یہ جھوٹی اور من گھڑت سندیں تو بیان نہیں کرتا؟ کیونکہ محض سندیں نقل کرنے اور ”اخبرنا“ و” حدثنا“ کہنے سے کوئی آدمی صحیح عالم ربانی نہیں کہلاسکتا، اس لئے کہ بعض اوقات مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کافر و ملحد بھی اس طرح کی اصطلاحات استعمال کیا کرتے ہیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ ہر مقرر و مدرس ،واعظ یا ”وسیع معلومات“ رکھنے والے ”اسکالر“وڈاکٹر کی بات پر کان نہ دھریں، بلکہ اس کے بارہ میں پہلے مکمل تحقیق کرلیا کریں کہ یہ صاحب کون ہیں؟ اور ان کے علم و تحقیق کا حدود اربعہ کیا ہے؟ کہیں یہ منکر حدیث، منکر دین،منکر صحابہ،منکر معجزات، مدعی نبوت یا ان کا چیلہ چانٹا تو نہیں؟
چنانچہ ہمارے دور میں اس کی بہت سی مثالیںموجود ہیں کہ ریڈیو، ٹی وی یا عام اجتماعات میں ایسے لوگوں کو پذیرائی حاصل ہوجاتی ہے، جو اپنی چرب زبانی اور ”وسعت معلومات“ اور تُک بندی کی بنا پر مجمع کو مسحور کرلیتے ہیں،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کے قائل، معتقد اور عقیدت مند ہوجاتے ہیں، ان کے بیانات، دروس اور لیکچر زکا اہتمام کرتے ہیں، ان کی آڈیو، ویڈیو کیسٹیں، سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز بنا بناکر دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن جب ان بے دینوں کا حلقہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے تو وہ کھل کر اپنے کفر وضلال اور باطل و گمراہ کن عقائد و نظریات کا پرچار شروع کردیتے ہیں، تب عقدہ کھلتا ہے کہ یہ تو بے دین، ملحد، بلکہ زندیق اور دھریہ تھا اور ہم نے اس کے باطل و گمراہ کن عقائد و نظریات کی اشاعت و ترویج میں اس کا ساتھ دیا اور جتنا لوگ اس کے دام تزویر میں پھنس کر گمراہ ہوئے یا آئندہ ہوں گے، افسوس ! کہ ان کے گمراہ کرنے میں ہمارا مال و دولت اور محنت و مساعی استعمال ہوئی ہیں۔
اس روایت میں یہی بتلایا گیا ہے کہ بعد کے پچھتاوے سے بہتر ہے کہ پہلے اس کی مکمل تحقیق کرلی جائے کہ ہم جس شخص سے علم اور دین سیکھ رہے ہیں، یہ انسان ہے یاشیطان؟مسلمان ہے یاملحد؟مو ¿من ہے یامرتد؟ تاکہ خود بھی اور دوسرے بھی ایسے شیاطین و ملحدین کی گمراہی اور گمراہ کن دعوت سے بچ سکیں۔
حال ہی کی بات ہے کہ متعدد احباب نے پوچھا کہ زید حامد نام کا ایک اسکالر آج کل ٹی وی پر آرہا ہے، جس کی براس ٹ ¿یکس ڈاٹ کام (.com brasstacks ) کے نام سے ایک ویب سائٹ ہے، جس میں اس کا مکمل تعارف اور اس کی تقاریر موجود ہیں، اسی ویب سائٹ میں بتلایا گیا ہے کہ یہ شخص جہاد افغانسان میں بھی شریک رہا ہے۔ چونکہ آج کل وہ کھل کر امریکا اور یہودیوں کے خلاف بولتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس جھوٹی سچی معلومات کا ذخیرہ ہے اور وہ نہایت ہی چرب لسان ہے، لہٰذا لوگ دھڑا دھڑ اس کے گرویدہ ہورہے ہیں۔ بتلایا جائے کہ یہ شخص کون ہے؟ اور اس کے عقائد و نظریات کیا ہیں؟ اس پر جب ہم نے اپنے طور پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص ملعون یوسف کذاب ...جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کو گرفتار کراکے حوالہ زندان کیا تھا اور جیل ہی کے اندر ایک عاشق ِ رسول نے اس کا کام تمام کیا تھا... کا خلیفہ اول ہے اور اس کا اصل نام زید زمان ہے۔
چنانچہ روزنامہ خبریں لاہور کی خبر ملاحظہ ہو:
”ملتان (اسٹاف رپورٹر) نبوت کے جھوٹے دعویدار کذاب یوسف ...جو توہین رسالت کے الزام میں گزشتہ ۸ ماہ سے جیل میں بند ہے ... نے اپنی غیر موجودگی میں برنکس کمپنی اسلام آباد کے منیجر زید زمان کو خلیفہ اول مقرر کردیا ہے اور تمام چیلوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ زید زمان کے احکامات کے مطابق کام کریں۔ زید زمان کو اس سے قبل ۸۲ /فروری کو کذاب یوسف کی نام نہاد ورلڈ اسمبلی آف مسلم یونٹی کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں خصوصی طور پر بلایا گیا تھا اور تقریباً ۰۰۱ افراد کی موجودگی میں کذاب یوسف نے اسے (اپنا) صحابی قرار دیتے ہوئے (نعوذباللہ) حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا خطاب دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے زید زمان کو حقیقت عطا کردی ہے۔ اس پروگرام کی ویڈیو اور آڈیو کیسٹ بھی تیار ہوئی، جو پولیس کے ریکارڈ میں محفوظ ہے اور مقدمہ کا حصہ ہے۔ اس اجلاس میں صحابی قرار پانے کے بعد زید زمان نے تقریر کی اور کذاب یوسف کی تعریف اور عظمت میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے تھے۔ زید زمان ان دنوں کذاب یوسف کی رہائی کے سلسلہ میں سرگرم ہے اور عدالت میں ہر تاریخ پر موجود ہوتا ہے۔ کذاب یوسف کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اڈیالہ جیل میں اس نے عبادات ترک کردی ہیں اور آج کل خط و کتابت کے ذریعے روٹھے مریدوں کو منانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔“ (روزنامہ خبریں، لاہور، ۸/نومبر ۷۹۹۱ئ)
چنانچہ جب یوسف کذاب جیل میں قتل ہوگیا، تو زید زمان از خود پس منظر میں چلا گیا، اور اپنے آپ کو منظر عام پر لانے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا، ایک عرصہ بعد جب عام لوگوں کے ذہن سے یوسف کذاب کا قضیہ اوجھل ہوگیا اور لو گ یوسف کذاب اوراس کے چیلے زید زمان کی دینی اور مذہبی حیثیت سے قریب، قریب ناآشنا ہوگئے، تو اس نے اپنے باپ کے نام کے پہلے جز کے بجائے دوسرے جز کو اپنے نام سے ملایا اور زید زمان کی جگہ زید حامد کے نام سے اپنے آپ کو متعارف کرانے اور منوانے کا ناپاک منصوبہ شروع کردیا، اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ملعون کا تعاقب کریں اور اس کے دام تزویر میں نہ آئیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کے متعلق بتلائیں تاکہ امت مسلمہ کا دین و ایمان محفوظ رہ سکے۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کو اس بات کابھی بطورِ خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ مستند علماء اور اکابر اہل ِ حق کے علاوہ کسی عام آدمی کو درس و تدریس کی مسند پر نہ بیٹھنے دیں اور نہ ہی اس کے حلقہ درس میں بیٹھیں، کیونکہ حجة الاسلام امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ:
”وانما حق العوام ان یومنوا ویسلموا ویشتغلوا بعبادتہم ومعایشہم ویترکوا العلم للعلمائ، فالعامی لو یزنی ویسرق کان خیراً لہ من ان یتکلم فی العلم، فانہ من تکلم فی اللّٰہ وفی دینہ من غیر اتقان العلم وقع فی الکفر من حیث لایدری کمن یرکب لجة البحر وہو لایعرف السباحة۔“
ترجمہ: ... ”یعنی عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لاکر اپنی عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں ،علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں۔ اس کو علماءکے حوالے کردیں۔عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے بھی زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے، کیونکہ جو شخص دینی علوم میں بصیرت اور پختگی نہیںر کھتا وہ اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے مسائل میں بحث کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ ایسی رائے قائم کرے جو کفر ہو اور اس کو اس کا احساس بھی نہ ہو کہ جو اس نے سمجھا ہے وہ کفر ہے، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تیرنا نہ جانتا ہو اور سمندر میں کود پڑے۔“ (احیاءالعلوم، ص:۶۳، ج:۳)
لہٰذا غیر مستند حضرات دین ومذہب میں دخل نہ دیںاور نہ ہی درس قرآن کی مسندوں پر بیٹھنے کی کوشش کریں،آج کل یہ فتنہ قریب قریب عام ہورہا ہے کہ ہرجاہل وعامی محض اردو کتب اورتراجم کی مدد سے درس قرآن دینے لگاہے، جبکہ یہ بہت ہی خطرناک ہے۔
اس سے دینی، مذہبی اور علمی اعتبار سے نوجوان نسل بہت ہی اضطراب کاشکارہورہی ہے، کیونکہ وہ دین و مذہب کے بارہ میں علما ¿ سے کچھ سنتے ہیں تو جدید اسکالروں سے کچھ اور،لہٰذا وہ اس کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟
اس لئے ضروری ہے کہ اربابِ علم وعمل جگہ جگہ ایسے مستند مدرسین، واعظین اور مقررین کاانتظام کریں جو ہر اعتبار سے لائق اعتماد ہوں، تاکہ نئی نسل کی ذہن سازی ہو،اوروہ ان جہالت کے علَم برداروں کی گمراہی سے محفوظ رہ سکیں۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین“
(ماہنامہ بینات محرم الحرام ۰۳۴۱ھ، مطابق جنوری ۹۰۰۲ئ)
قدرت الٰہیہ کا اصول ہے کہ ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو نکل آتا ہے، چنانچہ ہماری اس مختصر سی تحریر کی اشاعت کے بعد اگرچہ اپنے ہی حلقہ کے کچھ حضرات کو اضطراب اور بے چینی ہوئی اور راقم کو ان کی تیز و تند تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی برکت سے ایک فتنہ اور فتنہ پرور کی سازش بے نقاب ہوگئی اور مستقبل میں اس کے خطرناک اور تباہ کن نقصانات کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنے کا موقع مل گیا، خدا کرے کہ ہماری یہ ادنیٰ سی کوشش مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت و صیانت کا اور زید زمان کی ہدایت و توبہ کا ذریعہ ثابت ہو۔
جناب زید حامد اور اس سے اخلاص رکھنے والے مسلمانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ مجھے نہ تو زید حامد سے کوئی ذاتی پرخاش ہے، اور نہ ہی میرا اس سے کوئی جائیداد یا خاندان کا جھگڑا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میرا آج تک اس سے آمنا سامنا بھی نہیں ہوا، اس لئے اگر وہ آج اپنے ان عقائد و نظریات سے توبہ کرلے، یا کذاب یوسف علی پر دو حرف بھیج دے تو میں اس کو گلے لگانے کو تیار ہوں اور اپنی اس تحریر سے کھلے دل سے رجوع کا اعلان کردوں گا، تاہم جب تک وہ یوسف علی کذاب کے عقائد و نظریات سے منسلک ہے یا اس سے برا ¿ت کا اعلان نہیں کرتا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی اور غدار ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی و غدار، اپنے اندر چاہے کتنا ہی خوبیاں اور کمالات کیوں نہ رکھتا ہو، وہ ہمارے اور کسی سچے مسلمان کے لئے ناقابل برداشت ہے، اس لئے ناممکن ہے کہ کوئی مسلمان اس کو اپنا یا مسلمانوں کا نمائندہ اور ترجمان باور کرے۔
الغرض ہماری معلومات اور تحقیق کے اعتبار سے زید حامد یوسف کذاب کا خلیفہ اول، اس کا جانشین، اس کا صحابی، اس کے عقائد و نظریات کا داعی، علمبردار اور اس کی فکر و فلسفہ کا پرچارک ہے، اور وہ آج بھی انہیں خطوط پر گامزن ہے جن پر مدعی نبوت یوسف کذاب اسے چھوڑ کرگیا تھا، فرق صرف یہ ہے کہ یوسف کذاب کی زندگی میں وہ کھل کر اس کا حامی تھا، اب جب اس نے دیکھ لیا کہ حالات سازگار نہیں ہیں، تو اس نے باطنیوں کی طرح اپنے عزائم و منصوبوں کی تکمیل کے لئے اپنی تحریک کو زیر زمین کردیا ہے، اور اس نے اپنی حکمت عملی کسی قدر تبدیل کرلی ہے۔
لہٰذا زید حامد کا یہ کہنا کہ میں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا یا اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ”عذر گناہ بدتراز گناہ“ کے مترادف ہے، ہاں اگر وہ یہ کہتا کہ میرا اس سے تعلق تھا، مگر اب میں نے اس کے عقائد و نظریات سے توبہ کرلی ہے، پھر اپنی توبہ کے ثبوت کے طور پر توبہ نامہ اور توبہ کے گواہ پیش کردیتا، تو کسی کو کیا حق پہنچ سکتا تھا کہ وہ کسی توبہ کرنے والے کی توبہ کو قبول نہ کرتا؟
بہرحال ذیل میں ہم زید حامد کا تعارف، اس کے یوسف کذاب سے تعلق، اس کی صحابیت، اس کی خلافت، اس کی زندگی کے انقلابات اور قلا بازیوں کی مختصر روئیداد عرض کرنا چاہیں گے، لیجئے پڑھئے اور سر دھنیئے:
۱:.... زید حامد کے زمانہ طالب علمی کے اور شروع کے دوستوں کا کہنا ہے کہ زید حامد کا اصل نام زید زمان حامد ہے، اس کا شناختی کارڈ نمبریہ ہے: 3740510713477، اس کا باپ فوج کا ریٹائرڈ کرنل تھا، اس کا نام زمان حامد تھا، ۳۱۔بی بلاک ۶، پی ای سی ایچ سوسائٹی کراچی کے علاقہ نرسری میں چنیسر ہالٹ اور شاہراہ فیصل کے بیچ میں واقع کے ایف سی والی گلی میں پیچھے اس کی رہائش تھی، ۰۸۹۱ءمیں حبیب پبلک اسکول سے میٹرک کی، اسکول کی تعلیم کی تکمیل کے بعد اس نے کالج میں داخلہ لیا، کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے ۳۸۹۱ءمیں این ای ڈی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، این ای ڈی سے اس نے بی ای کی ڈگری حاصل کی، اس کے علاوہ اس نے پوسٹ گریجویشن، ایم ایس اور پی ایچ ڈی وغیرہ نہیں کی، اور نہ ہی وہ درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہا ہے، لہٰذا اسے ڈاکٹر یا پروفیسر وغیرہ کہنا اور لکھنا غلط ہے، جس زمانہ میں وہ این ای ڈی میں داخل ہوا، ایک ماڈرن نوجوان تھا، لیکن بہت جلد ہی اس کا اسلامی جمعیت طلبا کے ساتھ تعلق ہوگیا اور اسلامی جمعیت طلبا کے سرگرم کارکنوں میں سے شمار ہونے لگا، زید حامد جمعیت کے دوسرے کارکنوں کے مقابلہ میں نسبتاً لمبی داڑھی، سر پر پخول پہنے، سبز افغان جیکٹ کلاشنکوٹ زیب تن کئے دکھائی دیتا تھا، زید زمان شروع سے غیر معمولی ذہین و ذکی تھا، ان دنوں چونکہ جہاد افغانستان کا دور تھا، اس لئے تحریکی ذہن کا یہ نوجوان بھی عملی طور پر جہاد افغانستان کے ساتھ منسلک ہوگیا اور بڑھتے بڑھتے اس کا جہاد افغانستان کے بڑے لوگوں جلال الدین حقانی، حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سے، تعلق ہوگیا اور عملی جہاد اور گوریلا جنگ کے تجربات کا حامل قرار پایا، اردو اس کی مادری اور انگلش اس کی تعلیمی زبان تھی جبکہ پشتو اور فارسی اس نے افغانستان میں رہ کر سیکھی تھی، اس لئے وہ اردو، انگلش، پشتو اور فارسی بے تکلف بولنے لگا۔ اسی دوران اس کو جلال الدین حقانی، حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سے نہ صرف تقرب حاصل ہوگیا بلکہ حکمت یار اور ربانی کے پاکستانی دوروں کے موقع پر وہ ان کا ترجمان ہوتا تھا، اسی طرح دوسرے جہادی اور تحریکی راہنماﺅں سے بھی اس کے قریبی مراسم ہوگئے۔تعلیم سے فراغت کے بعد یہ برنکس نامی ایک سیکورٹی کمپنی کا منیجر بن کر ۲۹۹۱ءمیں کراچی سے راولپنڈی چلا گیا، پھر کچھ عرصہ بعد اس نے برنکس کمپنی چھوڑکر براس ٹیکس کے نام سے اپنی کمپنی بنائی اور اسی کے نام سے ویب سائٹ بھی ترتیب دی، آج کل اس کی تمام سرگرمیاں اسی کمپنی اور ویب سائٹ کی مرہون منت ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق زید حامد اس وقت: مکان نمبر 777، عمار شہید روڈ، چکلالہ اسکیم III ، راولپنڈی میںر ہائش پذیر ہے، جبکہ اس کے شناختی کارڈ کی کاپی کے اعتبار سے اس کا پتہ یہ ہے: مکان نمبر 9-A اسٹریٹ 2، چکلالہ 2، راولپنڈی۔
۲:.... جناب سعد موٹن صاحب بھی اسلامی جمعیت طلبا کے سرگرم کا رکن تھے، ان کا کہنا ہے کہ زید زمان سے میرا تعارف یوسف علی کے خاص مقرب رضوان طیب نے کرایا، یہ اس زمانہ کی بات ہے جب افغان جہاد کے آخری دن چل رہے تھے، اور طالبان کابل کو فتح کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے، کراچی کے کچھ لوگ تیار ہوکر افغان جہاد میں حصہ لینے جارہے تھے، جب طالبان حکومت بنی تو کچھ لوگوں نے سوچا کہ کیوں نہ پاکستان میں طالبان طرز کی خلافت قائم کی جائے، مذہبی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے یہی کہنا کافی تھا، رضوان طیب کے اسلامک سینٹر کے پلیٹ فارم پر زید زمان سے ملاقات ہوئی، پھر یہ دونوں ...زید زمان اور رضوان طیب....مسلم ایڈ کے لئے کام کرنے لگے اور میں بھی ان کے ساتھ کام کرنے لگا، مسلم ایڈ کا کارڈ آج بھی میرے پاس موجود ہے، میں ان کے ساتھ فنڈ اکٹھا کرتا تھا، ہم نے افغان جہاد کے حوالے سے ایک مووی قصص الجہاد کے نام سے تیار کی تھی، زید زمان اس کا ڈائریکٹر تھا، اس سی ڈی کی سیل اور فروخت کی ذمہ داری میری تھی، اس کے بعد زید زمان کی ملاقات یوسف کذاب سے ہوئی اور وہ اس کو کراچی لے آیا، رضوان طیب، سہیل احمد اور عبدالواحد کراچی میں ان کے شروع کے ساتھیوں میں سے تھے، ان لوگوں نے خلافت کا آسرا دے کر کراچی سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور اسلامی جمعیت طلبا اور جماعت اسلامی کے لوگوں کو ٹارگٹ بنایا، ہر آدمی کو اس کے رجحان کے حساب سے گھیرنے کی حکمت عملی وضع کی گئی، اگر کوئی جہاد سے متاثر تھا تو اس کے حوالے سے اور اگر کوئی تصوف یا کسی دوسری فکر سے وابستہ تھا تو اس لائن سے اس کو قریب لانے کے لئے اس فکر کے قصیدے پڑھے گئے، یوں کل کا مجاہد زید زمان ایک صوفی اور ذکر کی لائن کا آدمی بن کر ابھرا اور اس کو یوسف کذاب کا اتنا قرب حاصل ہوا کہ وہ نعوذباللہ اس کا صحابی اور خلیفہ اول قرار پایا۔
۳:.... یوسف کذاب کے مقرب خاص اور زید حامد کے دوست رضوان طیب کے بھائی منصور طیب کا فرمانا ہے کہ: میں زید حامد کو اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کا یوسف علی سے تعلق نہیں تھا، زید حامد ۹۸،۸۸۹۱ءکے انتخابات میں بہت سرگرم تھا، ۹۸۹۱ءمیں اس نے ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا اور اس کے لئے ایک ویڈیو فلم بھی تیار کی، اس نمائش کا اہتمام سوسائٹی کے علاقہ میں مختلف مقامات پرکیا گیا، اس زمانہ میں یہ مختلف جہادی راہنماﺅں کے ترجمان کی صورت میں نظر آتا تھا، ہم اس کی شخصیت سے بہت متاثر تھے، اور یہ اپنے آپ کو ایک بہت بڑا جہادی راہنما سمجھتا تھا، اس زمانہ میں اس نے افغان جہاد کے حوالے سے ایک ویڈیو فلم قصص الجہاد بھی تیار کی ۳۹۹۱ءمیں جہاد افغان ختم ہوگیا، تو یہ وہ دور تھا کہ اس نے تمام مجاہد راہنماﺅں کو گالیاں دینا شروع کردیں۔ ۴۹،۳۹۹۱ءمیں زید حامد لاہور سے اپنے ساتھ یوسف کذاب کو لے آیا اور اس کو سوسائٹی کے علاقہ کے تحریکی ساتھیوں سے متعارف کرایا اور کہا کہ یہ ایک بزرگ ہے جو صرف ذکر کی بات کرتا ہے، اگر کوئی سوا لاکھ درود شریف کا ورد کرے گا تو اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور دیدار ہوگا، میرے بڑے بھائی رضوان طیب یوسف علی سے منسلک ہوگئے اور ان کے خاص مقربین میں شامل ہوگئے، اس وجہ سے یوسف علی اور زید حامد میرے گھر آتے تھے، زید زمان جس کا پہلے سے ہمارے گھر آنا جانا تھا، یوسف علی کو ہمارے گھر لے آیا، اس زمانہ میں اسلامی جمعیت اور جماعت اسلامی سے متاثر تین درجن سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے، میرے بھائی تو اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے ہماری دکان کا ایک حصہ بیچا اور یوسف کذاب کو ایک گاڑی خرید کر دی اور لاکھوں روپے نقد دیئے، زید حامد یوسف کذاب کا مقرب اول تھا اس لئے پیسوں کی وصولی وہ کرتا تھا، میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ زید زمان نے خود اپنی جیب سے ایک ہزار روپے بھی نہیں دیئے ہوں گے، زید حامد نے مجھے یوسف کذاب کے نظریات پر مبنی پمفلٹ دیئے اور مختلف مساجد کے باہر تقسیم کرنے کو کہا، لہٰذا اس کا یہ کہنا کہ میں کسی یوسف علی کو نہیں جانتا محض جھوٹ اور فریب ہے۔
۴:.... اس سب سے قطع نظر ہم زید حامد سے پوچھنا چاہیں گے کہ اگر ان کا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں تھا یا نہیں ہے تو وہ یہ بتلانا پسند فرمادیں گے کہ یوسف کذاب کے خلاف لکھی گئی کتابوں: ”کذاب“ تالیف: میاں غفاراور ”فتنہ یوسف کذاب“ تالیف: ارشد قریشی میں ان کا یوسف علی کذاب کے مقدمہ میں بار بار تذکرہ کیوں آیا ہے؟ کیا وہ اس کا انکار کرسکتے ہیں کہ ”فتنہ یوسف کذاب“ کے بیس مقامات پر بایں الفاظ ان کا تذکرہ موجود ہے، ملاحظہ ہو:
۱:.... ”ورلڈ اسمبلی کے اجلاس میں یوسف علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سو سے زائد صحابہ کرام محفل میں بیٹھے ہوئے ہیں...اس نے...کراچی کے ایک صاحب زید زمان کو مجاہد کا لقب دیا۔ “ (ص:۳)
۲:.... ”ملعون نے اپنے انتہائی اہم مقربین کو لاہور ڈیفنس کینٹ میں واقع اپنی پرآسائش قیام گاہ میں طلب کرلیا، جن میں راولپنڈی سے زید زمان کے علاوہ کراچی سے سہیل نامی ایک شخص بھی شامل ہے۔“ (ص:۲۴)
۳:.... ”یوسف علی نے مذکورہ تردید جاری کرنے سے قبل سہیل اور زید زمان کے ذریعے ملک بھر کے تمام مریدوں سے ٹیلیفونک رابطے کئے۔“ (ص:۲۴)
۴:.... ”اطلاعات کے مطابق ان مریدوں کے لاہور پہنچنے سے قبل ہی وہاں زید زمان نامی ملعون کا ایک مرید پہلے موجود تھا۔“ (ص:۱۵)
۵:.... ”اطلاعات کے مطابق ایسے کسی بھی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری زید زمان کو سپرد کی جائے گی جو افغانستان کی جنگ میں براہ راست شریک ہونے کے باعث کمانڈو کی شہرت رکھتا ہے۔“ (ص:۱۵)
۶:.... ”اس سلسلہ میں زید زمان اور سہیل احمد خان نے کچھ سفارت خانوں سے بھی رابطہ کیا ہے۔“ (ص:۱۵)
۷:.... ”کراچی کا خلیفہ سہیل، راولپنڈی کا زید زمان...تھا۔ “ (ص: ۴۷)
۸:.... ”...پھر اسی محفل میں میں نے دو افراد عبدالواحد اور زید زمان کا بطور صحابی تعارف کروادیا۔ “ (ص:۷۷)
۹:.... ”ابوالحسین یوسف علی نے ۲۱ سال قبل ایک نام نہاد فرضی ورلڈ اسمبلی بنائی جس کا نام ورلڈ اسمبلی آف مسلم یونٹی ہے، ۸۲/ فروری ۷۹۹۱ءکو لاہور میں اس کا اجلاس ہوا، جس میں کذاب نے ۰۰۱ صحابہ کرام کی موجودگی کی بات کی اس اجلاس میں کراچی سے عبدالواحد، محمد علی ابوبکر، سیّد زمان...نے شرکت کی۔“ (ص:۰۱۱)
۰۱:.... ”ورلڈ اسمبلی کے دعوت نامہ میں بھی مذکورہ بالا افراد کے نام ہیں۔“ (ص:۶۱۱)
۱۱:.... ”یوسف کذاب کی اہلیہ نے نبوت کے جھوٹے دعویدار کو بعض کاغذات جیل میں پہنچائے ہیں، جو اس نے اپنے خاص آدمیوں زید زمان اور سہیل کے حوالے کردیئے، گزشتہ روز یہ افراد، وہ دستاویزات لے کر امریکی قونصلیٹ گئے اور کافی دیر تک وہاں موجود رہے۔“ (ص:۶۱۱)
۲۱:.... ”یوسف علی کو ملک سے فرار کرانے کی کوشش کی جائے گی، اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری زید زمان کے سپرد کی جائے گی، جو افغانستان کی جنگ میں براہ راست شریک ہونے کے باعث کمانڈو کی تربیت رکھتا ہے، اس سلسلہ میں زید زمان اور سہیل احمد خان نے کچھ سفارت خانوں سے بھی رابطہ کیا۔“ (ص:۶۰۳)
۳۱:.... ”یوسف کذاب کے گھر اور اہل خانہ کی حفاظت کی ذمہ داری برنکس کو دے دی گئی، فرم کے افسر زید زمان کو جھوٹے نبی نے اپنا خلیفہ مقرر کررکھا ہے۔ “ (ص:۳۱۳)
۴۱:.... ”یوسف کذاب کے گھر اور اہلِ خانہ کی سیکورٹی کی تمام تر ذمہ داری لاہور، راولپنڈی اور کراچی کی ایک مشہور سیکورٹی فرم برنکس کو دے دی گئی ہے۔ اس فرم کے ایک آفیسر زید زمان کو یوسف نے راولپنڈی اور اسلام آباد کا خلیفہ بھی مقرر رکھا ہے اور وہ ابھی تک اس جھوٹے نبی کے حصار میں ہے۔“ (ص:۴۱۳)
۵۱:.... ”...حاضرین محفل میں سے دو افراد عبدالواحد خان اور زید زمان کو اسٹیج پر بلاکر ان کا تعارف صحابی رسول کے طور پر کرایا۔“ (ص:۵۲۳)
۶۱:.... ”ملعون نے اپنے تمام مریدوں سے زید زمان اور سہیل احمد خان کے توسط سے رابطے کئے ہیں۔“ (ص:۳۶۳)
۷۱:.... ”کراچی کے سہیل احمد خان اورپشاور ...پشاور سہو کاتب ہے ورنہ وہ راولپنڈی کا خلیفہ تھا، ناقل...کے زید زمان نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سفارت خانوں سے رابطے کئے۔“ (ص:۰۷۳)
۸۱:.... ”مولانا عبدالستار خان نیازی نے کہا...کہ زید زمان نامی کوئی لڑکا چند افراد کے ساتھ میرے پاس آیا اور بتایا کہ بعض افراد اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے بعض اکابرین ایک صحیح العقیدہ مسلمان اور رسول کریم کے شیدائی کو کافر قرار دے کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرواچکے ہیں.... “ (ص:۰۹۳)
۹۱:.... ”کذاب یوسف نے برنکس کمپنی کے منیجر زید زمان کو خلیفہ اول مقرر کردیا۔“ (ص:۴۰۴)
۰۲:.... ”یوسف کذاب ...نے اپنی غیر موجودگی میں برنکس کمپنی اسلام آباد کے منیجر زید زمان کو خلیفہ اول مقرر کردیا ہے اور تمام چیلوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ زید زمان کے احکامات کے مطابق کام کریں، زید زماں کو اس سے قبل ۸۲/فروری کو کذاب یوسف کی نام نہاد ورلڈ اسمبلی آف مسلم یونٹی کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں خصوصی طور پر بلایا گیا تھا اور تقریباً ۰۰۱ افراد کی موجودگی میں کذاب نے اسے صحابی قرار دیتے ہوئے ...نعوذباللہ... حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا خطاب دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے زید زمان کو حقیقت عطا کردی ہے۔ اس پروگرام کی ویڈیو اور آڈیو کیسٹ بھی تیار ہوئی، جو پولیس کے ریکارڈ میں محفوظ ہے اور مقدمہ کا حصہ ہے۔ اس اجلاس میں صحابی قرار پانے کے بعد زید زمان نے تقریر کی اور کذاب یوسف کی تعریف اور عظمت میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے تھے۔ زید زمان ان دنوں کذاب یوسف کی رہائی کے سلسلہ میں سرگرم ہے اور عدالت میں ہر تاریخ پر موجود ہوتا ہے۔“ (ص:۷۲۴)
الغرض کیا ان کا یوسف کذاب کو بچانے، اس کے مقدمہ کی پیروی، اس کی حفاظت، اس کو بیرون ملک فرار کرانے اور امریکی کونسل خانہ تک اپروچ کرنے اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ کرنے وغیرہ مختلف حوالوں سے ان کا نام نمایاں طور پر نہیں لیا گیا؟ اگر ان کا اس ملعون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا تو یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا؟ کیا انہوں نے کبھی اس سے اپنی برا ¿ت کا اظہار کیا؟ یا کرسکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔
اسی طرح نبوت کے جھوٹے دعویدار یوسف کذاب کی کہانی پر مشتمل کتاب ”کذاب“ میں بھی بیس مقامات پر مختلف عنوانات اور خدمات کے ذیل میں بایں الفاظ ان کا تذکرہ ملتا ہے، پڑھئے اور سر دھنیئے:
۱:.... ”اس جلسے میں کذاب کا چیلا زید زمان جسے کذاب نے ”صحابی“ قرار دیا تھا، اسٹیج پر براجمان تھا۔“ (ص:۴۲)
۲:.... ”کذاب کو کم از کم اپنے ان دو ”صحابیوں“ عبدالواحد اور زید زمان ہی کو اپنی صفائی میں عدالت میں لانا چاہئے تھا۔“ (ص:۵۲)
۳:.... ”اپنی تقریر کے دوران اپنے دو چیلوں عبدالواحد خان اور زید زمان کو ”صحابی“ کی حیثیت سے متعارف کروایا وہ دونوں اس محفل میں موجود تھے۔“ (ص:۰۵)
۴:.... ”سب سے پہلے وابستہ اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے، آئیں سیّد زید زمان:“ (ص:۲۵)
۵:.... ”کراچی سے عبدالواحد، محمد علی ابوبکر ، سیّد زید زمان، سروش، وسیم، امجد، رضوان، کاشف، عارف اور اورنگزیب خان اور شاہد نے شرکت کی۔“ (ص:۴۶)
۶:.... ”راولپنڈی کا خلیفہ زید زمان، پشاور کا خلیفہ سابق ایئر کموڈور اورنگزیب تھا۔“ (ص:۱۹)
۷:.... ”اس دوران اس کے خاص کارندے زید زمان جو راولپنڈی میں برنکس نامی ایک سیکورٹی کی فرم میں آفیسر ہے، نے کذاب یوسف کے گھر پر سیکورٹی کا عملہ تعینات کردیا۔ “ (ص:۴۹)
۸: .... ”پھر اسی محفل میں ، میں نے دو افراد عبدالواحد خان اور زید زمان کا بطور صحابی تعارف کروایا۔“ (ص:۵۹)
۹:.... ”...حتی کہ عبدالواحد خان اور زید زمان بھی گواہی کے لئے نہ آئے جنہیں اس نے یتیم خانہ لاہور، بیت الرضا میں نعوذباللہ خلفائے راشدین کا درجہ دیا تھا۔“ (ص:۵۲۱)
۰۱:.... ”اس نے دو افراد زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:۵۷۱)
۱۱:.... ” اس ...یوسف علی...نے دو افراد جن کے نام زید زمان اور عبدالواحد تھے کو آگے بلایا اور ان کا تعارف صحابی رسول کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:۹۷۱)
۲۱:.... ”میں نے اجلاس میں شرکت کی تھی جہاں آڈیو اور ویڈیو کیسٹ تیار کی گئی تھی...ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابیوں کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص: ۷۸۱)
۳۱:.... ”یہ درست ہے کہ ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کو اصحاب رسول کہا، اپنے صحابی نہیں کہا۔“ (ص:۶۹۱)
۴۱:.... ”پھر دوران تقریر یوسف علی ملزم نے دو اشخاص کو جن کے تعارف زید زمان اور عبدالواحد کرائے، ان کو بطور صحابی پیش کیا۔“ (ص:۱۱۲)
۵۱:.... ”حافظ ممتاز مذکورہ اجتماع میں موجود تھے...جس میں تم نے اپنے دو مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:۰۳۲)
۶۱:.... ”کیا یہ درست ہے کہ...تم نے عبدالواحد اور زید زمان کو اپنے صحابی کی حیثیت سے متعارف کرایا اور ان دونوں افراد نے کسی حد تک خود بھی تقریریں کیں؟۔“ (ص:۸۳۲)
۷۱:.... ”...میں نے جس اجتماع میں اپنے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا، وہاں بیٹھے افراد میں سے اپنے مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔ “ (ص:۷۹۲)
۸۱:.... ”مثال کے طور پر آڈیو کیسٹ بی، ا۔کاٹرنسکرپٹ ایگزیبٹ پی۔۰۱ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے عبدالواحد اور زید زمان کے صحابی رسول ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:۴۳۳)
۹۱:.... ”یہاں موجود سو افراد اصحاب رسول ہیں، اس نے عبدالواحد اور زید زمان نامی دو افراد کا تعارف صحابی کی حیثیت سے اور اپنا پیغمبر اسلام کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:۰۴۳)
۰۲:.... ”ملزم یوسف نے مسجد میں اپنے ایک سو صحابیوں کی موجودگی کا ذکر کیا اور اس نے دو افراد عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص:۳۴۳)
خلاصہ یہ کہ کیا اس کتاب میں بھی مختلف عنوانات اور خدمات کے سلسلہ میں ان کا نام درج نہیں ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے تو یہ سب کچھ بغیر کسی تعلق اور تعارف کے ہے؟
۵:.... اسی طرح کل کے زید زمان اور آج کے زید حامد صاحب !اس آڈیو اور ویڈیو کیسٹ کے مندرجات کا انکار کرسکیں گے؟ جس میں ملعون یوسف کذاب نے لاہور کی مسجد بیت الرضا میں نام نہاد اپنے سو صحابہ کی موجودگی کا اعلان کیا، اور ان میں سے دو خاص الخاص صحابہ اور خلفاءکا تعارف بھی کرایا، پھر اس موقع پر آپ نے اور عبدالواحد نے حق نمک ادا کرتے ہوئے مختصر سا خطاب بھی کیا تھا۔ لیجئے! اس کیسٹ کے مندرجات اور اپنی تقریر بھی ملاحظہ کیجئے:
”کائنات کے سب سے خوش قسمت ترین انسانو! اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے خوش نصیب صاحبانِ ایمان۔ حضور سیّدنا محمد رسول اللہ سے وابستہ ہونے والو! ان پر وارفتہ ہونے والو! ان پر تن من دھن نثار کرنے والو! صاحبانِ نصیب انسانو! آپ کو مبارک ہو کہ آج آپ کی اس محفل میں القرآن بھی موجود ہے، قرآن بھی موجود ہے، پارے بھی موجود ہیں، آیات بھی موجود ہیں، آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک آیت ہے، کچھ خوش نصیب اپنی اپنی جگہ ایک پارہ ہیں، جن کو اپنے پارے کا احساس ہے، ان کو قرآن کی پہچان ہے، اور جن کو قرآن کی پہچان ہے ان کو القرآن کی پہچان ہے، آج نور کی کرنیں بھی نچھاور کرنی ہیں، اور نور کے اس سفر میں جو لوگ انتہائی معراج پر پہنچ گئے ہیں، ان سے بھی آپ کا تعارف کروانا ہے، آج کم از کم یہاں اس محفل میں ۰۰۱ صحابہ موجود ہیں، ۰۰۱ اولیاءاللہ موجود ہیں، ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔
بھئی صحابی وہی ہوتا ہے ناں ،جس نے صحبت رسول میں ایمان کے ساتھ وقت گزارا ہو اور اس پر قائم ہو گیا ہو اور رسول اللہ ہیں ناں اور اگر ہیں تو ان کے صاحب بھی ساتھ ہیں، اس صاحب کے جو مصاحب ہیں وہی تو صحابی ہیں۔
ان صحابہ کے ذریعے کائنات میں ربط لگا ہوا ہے ان کے صدقے کائنات میں رزق تقسیم ہورہا ہے، ان کے صدقے شادی بیاہ ہورہے ہیں، ان کے صدقے پانی مل رہا ہے، ان کے صدقے ہوا چل رہی ہے، ان کے صدقے چاند کی چاندنی ہے، ان کے صدقے سورج کی روشنی ہے، یہ نہ ہوں تو اللہ بھی قسم اٹھاتا ہے کہ کچھ بھی نہ ہو گا۔ حتی کہ یہ جو سانس آرہا ہے یہ بھی ان کے صدقے ہے۔یہ ہیں وہ صحابہ، ان کا آپ کو علم ہے کہ دنیا کے کتنے بڑے ولی کیوں نہ ہوں، لاکھوں کروڑوں ان کے مرید کیوں نہ ہوں، ان صحابہ کے گھوڑے، الفاظ یہ ہیں: خدا کی قسم! ان کی سواری کے پیچھے جو گرد اڑتی ہے، اس کے برابر بھی وہ پیر، وہ ولی نہیں ہوسکتا، جس کے لاکھوں کروڑوں مرید ہیں، کیوں وہ پیر ولی ہیں، اللہ کو دیکھے بغیر، یہ ہیں دیکھ کر۔
ان صحابہ میں ایک ایک اپنی جگہ نمونہ ہے اور ایک ایک کا تعارف کروانے کو جی چاہتا ہے لیکن ہم صرف دو کا تعارف کروائیں گے عمر کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، حقیقت کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، ایک وہ خوش نصیب ہستی ہے، کائنات میں وہ واحد ہستی ہے نام بھی ان کا عبدالواحد ہے محمد عبدالواحد، ایک ایسے صحابی ایک ایسے ولی اللہ ہیں کہ جن کا خاندان پوری کائنات میں سب سے زیادہ تقریباً سارے کا سارا وابستہ ہے رسول اللہ سے وارفتہ ہے اور محمد الرسول اللہ سے وابستہ ہو کر محمد رسول اللہ کے ذریعے ذات حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچا ہے۔ نعرئہ تکبیر کے ساتھ ان کا استقبال کیجئے! اور میں ان کو کہوں گا ،کچھ ہمیں کہیں؟ بسم اللہ !
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم!
آج سے ۵۲ سال پہلے مکہ معظمہ میں ایک بزرگ سے ایک شعر سنا جو صبح سے میرے کانوں میں گونج رہا ہے، انہوں نے فرمایا تھا:
”میں کہاں اور یہ نگہت گل!
نسیم صبح یہ تیری مہربانی“
یہ شعر تو بہت پسند آیا، مگر اب پتہ لگا کہ ذاتِ حق کا کرم اور اس کی رحمت، اس کا خالص کرم کہ یہ نگہت گل بھی اور نسیم سحر بھی اور حصول بھی وہ سب اندر ہی اندر موجود ہیں، یہ ایک لباس میں چھپے ہوئے ہیں، ایک اور ہے بہت عرصہ پہلے علامہ اقبال نے بڑے تڑپ کے ساتھ ایک شعر کہا تھا:
”کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں“
مبارک ہو کہ اب انتظار کی ضرورت نہیں، علامہ اقبال تو منتظر تھے، الحمدللہ ذات حق مل گیا، مبارک ہو۔
دوسرا تعارف اس نوجوان صحابی، اس نوجوان ولی کا کرواﺅں گا جس کے سفر کا آغاز ہی صدیقیت سے ہوا ہے اور جس رات ہمیں نیابت مصطفی عطا ہوئی تھی، اگلی صبح ہم کراچی گئے تھے اور سب سے پہلے وابستہ ہونے اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے۔ آئین سیّد زیدزمان، نعرئہ تکبیر:
برسوں ایک سفر کی آرزو رہی، کتابوں میں پڑھا تھا چالیس، چالیس سال پچاس پچاس سال چلے کئے جاتے تھے ریاضت اور مجاہدہ ہوتا تھا، میرے آقا سیّدنا علیہ صلوٰة والسلام کی انتہا سے انتہائی شدید انتہائی محبت کے بعد ایک طویل سفر، ریاضت کا مجاہدے کا گزارا جاتا تھا تو آقا کی زیارت ہوتی تھی ایک سفر کا آغاز، ہمیشہ سے یہ پڑھا اور سنا اور خوف یہ کہ کہاں ہم! کہاں یہ ماحول! کہاں یہ دور! کس کے پاس وقت ہے کہ برسوں کے چلے کرے، کس کے پاس وقت ہے کہ صدیوں کی عبادتیں کرے اور پھر صرف دیدار نصیب ہو، تڑپ تو تھی کہ صرف زیارت و دیدار ایسا نصیب ہو کہ صرف اس جہاں میں نہیں، صرف آخرت میں نہیں، صرف لامکاں میں نہیں، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، وصل قائم رہے، تو ایک راز سمجھ میں آیا کہ : ”نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“ زہد ہزاروں سال کا اور پیار کی نگاہ ایک طرف،
اپنے کسی ایسے پیارے کو دیکھو جو پیار کی نگاہ سے کہ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوجائے۔ نعرئہ تکبیر۔“
(منقول از کیسٹ بیت الذکر لاہور و کذاب، ص:۰۵ تا ۳۵)
۶:.... اگر زید زمان المعروف زید حامد کا، ملعون یوسف کذاب کے ساتھ تعلق نہیں تھا، تو اس نے مولانا محمد یوسف اسکندر کے بار بار کے استفسار پر یہ اقرار کیوں کیا کہ جی ہاں یوسف علی کے مقدمہ میں میرا بہرحال کسی قدر کردار رہا ہے؟
۷:.... اگر زید زمان المعروف زید حامد کامدعی نبوت یوسف علی کذاب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ اس کو نہیں جانتا تو اس نے ۳۱/اگست ۰۰۰۲ءکے روزنامہ ڈان میں مدعی نبوت ملعون یوسف علی کذاب کے خلاف عدالتی فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ :”یہ عدل و انصاف کا خون ہے؟“
۸:.... نوفل شاہ رخ کا کہنا ہے کہ :”میں زید حامد کو گزشتہ بیس سال سے جانتا ہوں، میری سب سے پہلی ملاقات زید حامد سے ۹۸۹۱ءمیں حکمت یار کے کراچی کے دورے میں ہوئی، جب وہ اس کے ترجمان تھے۔ میں اس روشن چہرے والے متحرک نوجوان این ای ڈی کے گریجویٹ انجینئر سے، جو بیک وقت روانی سے فارسی، انگریزی، پشتو اور اردو بول سکتا تھا بہت متاثر ہوا، اس وقت یہ زید حامد نہیں بلکہ زید زمان تھا اسی زمانہ میں زید زمان نے قصص الجہاد نامی ویڈیو تیار اور تقسیم کی جس میں افغان مجاہدین اور روسی افواج کا دوبدو مقابلہ دکھایا گیا تھا یہ ویڈیو اپنی قسم میں جدا اور یکتا تھی، اس زمانہ میں زید زمان ایک سحر انگیز شخصیت تھے مگر پھر کچھ عجیب سی باتیں ہوئیں، زید زمان ایک برطانوی بیس این جی اوز” مسلم ایڈ“ کے مالی اسکینڈل کا مرکزی نقطہ بنے، بعدازاں انہوں نے حکمت یار اور حقانی سے رابطہ توڑ کر احمد شاہ مسعود کے ساتھ تعلقات استوار کرلئے اور پھر بعد میں جہاد کو یکسر فراموش کرکے ”صوفی“ بن گئے، اسی دوران جب ملعون یوسف علی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہ اس سے منسلک ہوگیا اور اس کا صحابی اور خلیفہ اول قرار پایا اور کئی دفعہ اخبارات و رسائل میں اس کا نام یوسف علی کذاب کے صحابی اور خلیفہ کے نام سے چھپا۔“ (کاشف حفیظ، روزنامہ امت کراچی) اگر زید زمان المعروف زید حامد کا مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی، مذہبی عقیدت و محبت، پیری، مریدی یا نبوت و خلافت کا کوئی رشتہ نہیں تھا تو اس نے ملعون یوسف کذاب کی بھر پور وکالت کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر بے شمار سائلین کے جواب میں ملعون یوسف کذاب کی صفائیاں کیوں دیں؟ اور اس کے خلاف مقدمہ کو جھوٹا مقدمہ کیوں کہا؟ اور یہ کیوں کہا کہ دراصل خبریں گروپ کے ضیاءشاہد اور یوسف کذاب کے درمیان جائیداد کا تنازعہ تھا، جس کی بنا پر اس کے خلاف سازش کی گئی تھی ورنہ وہ تو بڑا درویش صفت اور صوفی اسکالر تھا؟
۹:.... زید زمان کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر جاکر زید حامد سے یوسف کذاب سے متعلق سوالات کرنے والے بیسیوں سائلین کا کہنا ہے کہ اگر زید زمان المعروف زید حامد کا یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی اور مذہبی رشتہ نہیں تھا یا نہیں ہے تو وہ یوسف کذاب کے غلیظ عقائد کے بارہ میں صاف صاف جواب کیوں نہیں دیتا اور یہ کیوں نہیں کہتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا ہر دعویدار دجال و کذاب اور ملحد و مرتد ہے؟ اور وہ اس دجال کے عقائد سے متعلق پوچھے گئے ہر سوال کے جواب میں یہ کیوں کہتا ہے کہ اس کی کوئی بات تصوف کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟
۰۱:.... جو بھولے بھالے مسلمان اور مخلص و دین دار افراد زید زمان المعروف زید حامد کے دفاعی تجزیوں جہاد و مجاہدین کے حق میں اور یہود و امریکا کے خلاف بولنے اور کھلی تنقید کرنے کی بنا پر ان کو طالبان اور مسلمانوں کا نمائندہ یا ترجمان سمجھتے ہیں ان کو زید حامد کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر انگریزی میں جاری کردہ رپورٹ:
"What Really Happened "کا مطالعہ بھی کرلینا چاہئے، اگر کوئی شخص اس کی اس انگلش رپورٹ کو پڑھ کر سمجھ لے تو اس کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ طالبان، دین، دینی مدارس اور علماءکے بارے میں کتنا مخلص ہے؟ یا جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے شہداءاور اس قضیہ کے کرداروں کے بارہ میں ان کے دلی اور قلبی کیا جذبات و احساسات ہیں؟ چنانچہ اس رپورٹ کے آغاز میں انہوں نے اپنی ۸/جولائی ۷۰۰۲ءکی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:
”(لال مسجد کے معاملے میں) حکومت کی ناموری، ستائش اور تذلیل کے درمیان ایک پاگل مولوی (Psychopath Cleric ) اور دہشت گردوں کا ایک گروپ کھڑا ہے جس نے لوگوں کو پاکستانی دارالحکومت کے قلب میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔“ (رپورٹ اس طرح کے زہریلے الفاظ اور تجزیوں سے پُر ہے)۔
٭.... (لال مسجد کے علماءاور طلبا و طالبات) منکرِ دین، بے وفا، فراری اوباش (Renegade ) جنگجوﺅں کا گروپ ہے جو ”تکفیری“ کہلاتے ہیں، یہ ان مسلمانوں پر جنگ مسلط کردیتے ہیں جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے، یہ نظریاتی طور پر حکومت دشمن، بدنظمی پسند، انتشاری اور شورش طلب (Anarchist ) اور معروف جہادی گروپس کے درمیان بے خانماں اور خارجی (Outcastes )لوگ ہیں۔
٭.... میرے خیال میں (سانحہ میں) ہلاک و زخمی ہونے والوں کی کل تعداد 200سے250 ہوسکتی ہے بشمول 75جنگجوﺅں کے، اس تعداد کو حکومت نے بھی تسلیم کیا ہے، ملا دباﺅ بڑھا رہے ہیں یہ منوانے کے لئے کہ اندر 1000لوگ تھے، یہ بے معنی اور فضول بات ہے، جیسا کہ ان کے مرحوم لیڈر کہتے رہے کہ اندر 1800لوگ ہیں یہ (Bluff ) تھا۔
٭.... جی ہاں! میڈیا کو جو ہتھیار دکھائے گئے، ان کا تعلق ان جنگجوﺅں سے تھا اور ان عمارتوں میں اسلحے کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا جن میں مشین گنیں، راکٹ لانچرز، بارودی سرنگیں، ہینڈ گرنیڈز، گیس ماسک، مولوٹوو کوک ٹیلز اور خودکش حملے کی جیکٹس شامل تھیں، ہمیں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں حکومتی موقف بالکل درست ہے، لال مسجد ایک عارضی اسلحہ (Weapons Dump ) تھی اور بلاشبہ ایک طویل جنگ اور مسلح بغاوت (Armed Rebellion ) کے لئے تیار مقام۔
٭.... باوجود اس کے کہ مولوی مصر ہیں کہ مدرسے میں 1000سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، ہمارے پاس اس بات کو تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں، یہ محض بڑے پیمانے پر پھیلائی جانے والی ڈس انفارمیشن ہے، کوئی ایک ،جی ہاں! ایک بھی کسی ثبوت کے ساتھ آگے نہیں آیا جس میں مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کے نام، رول نمبر اور پتے درج ہوں اور نہ ہی کوئی حاضری رجسٹر پیش کیا گیا جس سے پتا چل سکے کہ مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کی اصل تعداد کیا تھی۔
٭.... ہمارے اپنے ذرائع سے حاصل کردہ مفصل شہادتیں موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آپریشن کے دوران صرف چند سویلین (خواتین اور بچوں) کی ہلاکتیں ہوئیں، شاید صرف چند درجن، اس تعداد کو حکومت نے بھی اب تسلیم کرلیا ہے۔“
(کوئی بتلاﺅ کہ ہم بتلائیں کیا، از ڈاکٹر فیاض عالم)
۱۱:.... مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی فرماتے ہیں: یوسف کذاب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ اہانت رسول کا بھی ارتکاب کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین کے حکم پر بندہ نے کذاب کے خلاف کیس رجسٹرڈ کرایا۔ کذاب کے چیلوں میں سرفہرست دو نام تھے: ایک کا نام سہیل احمد خان ،دوسرے کا نام زید زمان تھا، جنہیں کذاب اپنا صحابی کہتا تھا۔ کذاب کے ساتھ عدالت میں جو لوگ آتے تھے ان میں بھی سرفہرست مذکورہ بالا دونوں افراد تھے۔ مذکورہ بالا افراد نے ترغیب و ترہیب غرض ہر لحاظ سے کوشش کی کہ بندہ کیس سے دستبردار ہوجائے۔ اللہ پاک کی دی ہوئی استقامت کے ساتھ مقابلہ جاری رکھا۔ موبائل ابھی عام نہیں ہوئے تھے، بندہ چھٹی پر شجاع آباد آیا ہوا تھا۔ زید زمان نے کسی طریقہ سے میرا رابطہ نمبر حاصل کیا، جو ہمارے پڑوس کے گھر کا نمبر تھا، ایک دن عصر سے تھوڑی دیر پہلے میرے پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹاکر پیغام دیا کہ آپ کا فون آنے والا ہے۔ بندہ نے گھنٹی بجنے پر ریسور اٹھایا کہ دوسری طرف سے آواز آئی کہ راولپنڈی سے زید زمان بول رہا ہوں۔ میں نے کہا فرمایئے! زید زمان نے کہا کہ آپ نے ہمارے حضرت (یوسف کذاب) کے خلاف کیس کیا ہوا ہے وہ واپس لے لیں۔ میں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا، اس کا انجام آپ کو معلوم ہے ؟ بندہ نے کہا کہ نفع و نقصان سوچ کر کیس کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہماری طرف سے پیشکش ہے، فرمایئے آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ میری ضرورت میرا اللہ پوری کررہا ہے، اب اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہا کہ ہمارے حضرت کی جماعت اگرچہ تھوڑی ہے، لیکن کمزور نہیں ہے، میں نے جواب میں کہا کہ ہمارے حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جماعت بہت بڑی ہے اور بہت مضبوط ہے، اس نے مزید گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہا تو بندہ نے کہا کہ بات عدالت میں ہوگی۔ چنانچہ کیس کی سماعت کے دوران زید زمان یوسف کذاب کے محافظین میں رہا بلکہ کیس کی سماعت کے دوران جب بندہ کا بطور مدعی بیان جاری تھا اور کذاب کا وکیل بندہ پر تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور وہ کیس سے غیر متعلقہ سوال کررہا تھا تو بندہ نے کہا کہ آپ کیس سے متعلق سوال کریں، غیر متعلقہ سوال نہ کریں تو عدالت نے مجھے کہا کہ وکیل جو سوال کرے آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ اس دوران ایک سوال صحابی سے متعلق بھی ہوا کہ صحابی کی کیا تعریف ہے؟ بندہ نے تعریف بتلائی، اتفاقاً اس روز زید زمان سوٹ میں تھا، پینٹ، شرٹ اور ٹائی زیب تن کی ہوئی تھی، بندہ نے عدالت سے کہا کہ آپ نے صحابہ کرام کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوگا، ایک رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے جو آپ کی سیرت طیبہ کا پر تو تھے، ان کی وضع قطع چال ڈھال، لباس میں سیرت طیبہ نظر آتی تھی۔ نعوذباللہ! ایک یہ صحابی ہیں جن کا لباس اور وضع قطع دیکھ کر علامہ اقبالؒ یاد آتے ہیں، علامہؒ نے فرمایا:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اس پر زید زمان بہت شرمندہ ہوا ،زید زمان یوسف کذاب کی موت تک اس کا چیلہ بنا رہا، حتی کہ جب کذاب کی میت کو اسلام آباد کے مسلمانوں کے قبرستان سے نکالا گیا، تب بھی اس کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔
۲۱:.... الغرض اگر زید زمان المعروف زید حامد، مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب سے اپنی برا ¿ت کرنا چاہتا ہے یا اس سے اپنا رشتہ برقرار نہیں رکھنا چاہتا تو وہ روزنامہ جسارت کراچی، روزنامہ امت کراچی، ماہنامہ بینات کراچی اور ہفت روزہ ختم نبوت میں شائع شدہ مضامین اور راقم الحروف سعید احمد جلال پوری، جناب کاشف حفیظ، جناب این خان، جناب ابو سعد، جناب نوفل شاہ رخ، جناب سعد موٹن، ڈاکٹر فیاض عالم وغیرہ کے کالموں اور جناب رانا اکرم اور منصور طیب، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی وغیرہ کی شہادتوں کی تردید میں کھل کر یہ کیوں نہیں کہہ اور لکھ دیتا کہ میرا اب مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دینی، مذہبی اعتبار سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کے عقائد و نظریات اور ملحدانہ دعاوی کی بنا پر میں اس کو کافر و مرتد سمجھتا ہوں، بے شک میرا اس سے کبھی تعلق تھا، یا میں اس کا خلیفہ تھا، لیکن اب میں نے ان تمام کفریہ اور ملحدانہ عقائد سے رجوع کرکے ان سے توبہ کرلی ہے، لہٰذا آئندہ میرا اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ جوڑا جائے اور کسی آدمی کے کفریہ عقائد سے توبہ کرلینے کے بعد اس کو توبہ سے قبل کے کفریہ اور ملحدانہ عقائد و نظریات کا طعنہ دینا قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً ناجائز ہے، اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے نیز میں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے اور مجھے اس رجوع و توبہ پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ہمارے خیال میں اگر زید زمان المعروف زید حامد اس طرح کی ایک تحریر یا اس طرح کا بیان مجمع عام میں لکھ کر یا بیان کرکے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردے یا کسی اخبار میں شائع کرادے تو اس سارے نزاع کا خاتمہ اور اس قضیہ کا بآسانی فیصلہ ہوسکتا ہے، اور آئندہ اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی بدگمانی بھی راہ نہیں پاسکے گی، بلکہ اس تحریر و بیان کے بعد ان کے خلاف جو کوئی لب کشائی کرے گا وہ خود منہ کی کھائے گا، لیکن اگر وہ ان تمام شواہد و قرائن اور دلائل و براہین کے باوجود ...جن سے اس کا یوسف کذاب کے ساتھ مریدی، خلافت، صحابیت اور عقیدت کا گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے...گومگو کی کیفیت میں رہے گا یا اس کی وکالت کرتے ہوئے اس کو صوفی اسکالر اور عاشق رسول ثابت کرنے کے ساتھ یہ کہتا رہے گا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا یا نہیںہے، تو اس کی اس بات کا کیا وزن ہوسکتا ہے؟ یا اس کی بات کو کوئی عقلمند تسلیم کرسکتا ہے؟
۳۱:.... خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ زید زمان المعروف زید حامد کو ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دیکھ چکے تھے یا ان کو معلوم تھا کہ یوسف کذاب نے اس کو اپنا خلیفہ بنایا تھا اور نعوذباللہ اس کو حضرت ابوبکر صدیق کا خطاب دیا تھا اور ان حضرات نے اسی دور میں اس کی تقریریں بھی سُنی تھیں، انہوں نے جب اس کی حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہا یا علماءکرام سے اس کے تعاقب کی درخواست کی اور ہماری طرح دوسرے حضرات نے اس کی عیاری کی نشاندہی کرنا چاہی تو اس نے صاف انکار کردیا کہ میں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا، کیونکہ یوسف کذاب کا خلیفہ زید زمان تھا اور میرا نام تو زید حامد ہے، اس پر جب مزید تحقیق کی گئی تو بحمدللہ اس کی وہ کیسٹ بھی مل گئی جس میں اس نے اپنی خلافت کے موقع پر تقریر کی تھی ...جس کا مضمون اوپر نقل ہوچکا ہے... اور یوسف کذاب کے دام تزویر سے نکلنے والے متعدد حضرات مثلاً :ڈاکٹر اسلم، رانا محمد اکرم، ابوبکر محمد علی، سعد موٹن، نوفل اور منصور طیب صاحب وغیرہ نے یقین کے ساتھ باور کرایا کہ یہ ملعون وہی ہے۔ ان میں سے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ زید حامد کا فتنہ یوسف کذاب کے فتنہ سے بڑھ کر خطرناک ثابت ہوگا، کیونکہ یوسف کذاب میڈیا پر نہیں آیا تھا اور لوگ اس کے اتنے گرویدہ نہیں ہوئے تھے، جتنا اس سے متاثر ہیں، یا یہ اپنا حلقہ بناچکا ہے۔
شُنید ہے کہ زید زمان المعروف زید حامد آج کل لوگوں کو وضاحتیں پیش کرتا پھر رہا ہے کہ میرا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ جن لوگوں کے پاس ایسے کوئی ثبوت ہوں وہ میرے سامنے لائیں۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم اس کا چیلنج قبول کرتے ہیں اور ایسے تمام حضرات، جو اِس کو اُس دور سے جانتے ہیں، جب وہ افغانستان میں پہلے حکمت یار اور بعد ازاں احمد شاہ مسعود کے ساتھ تھا اور پاکستان میں ان کی ترجمانی کرتا تھا اور پھر یوسف کذاب کے ساتھ وابستہ ہوگیا، اس دور کی تمام باتیں یاد دلا کر اس کے جھوٹ اور دجل کو آشکارا کرنے کے لئے تیار ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اور بعض دین دار اس کے سحر میں گرفتار ہیں، بہرحال ہمارا فرض ہے کہ ہم امت کو اس کی فتنہ سامانی سے بچائیں۔
مکرر عرض ہے کہ جہاد افغانستان کے حق میں یا امریکا اور یہودیوں کے خلاف تقریریں کرنا، کسی ملحد کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں، اس لئے کہ ایسے ملحدین اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے دور رس منصوبے ترتیب دیتے ہیں، چنانچہ اہل ِ بصیرت خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شروع شروع میں مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ہندوﺅں، آریوں اور عیسائیوں کے خلاف تقریریں، مناظرے اور مباحثے کرکے اپنی اہمیت منوائی تھی اور اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کا ترجمان باور کرایا تھا، لیکن جب اس کی شہرت ہوگئی اور اس کا اعتماد بحال ہوگیا تو اس کے بعد اس نے مہدی، مسیح اور نبی ہونے کے دعوے کئے تھے، ٹھیک اسی طرح یہ بھی اسی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ایسے فتنہ پروروں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
|